مقبول بٹ کی برسی پر وادیِ کشمیر میں عام ہڑتال اور پُر تشدد مظاہرے
      
      
      
February 11, 2009
      
 
 

قوم پرست رہنما مقبول بٹ کی پچیسویں برسی پر مسلم اکثریتی وادیِ کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی تاہم اِس دوران کچھ علاقوں میں اکا دکا دوکانیں کھلی تھیں اور سڑکوں پر نجی گاڑیاں چلتی نظر آئیں۔

بارہ مولا میں جب دوکانیں کھلنے لگیں تو نوجوانوں کی ٹولیوں نے اُنھیں بند کرادیا اور پھر اُن کی پولیس کے ساتھ دن بھر جھڑپیں ہوتی رہیں۔

سری نگر میں بھی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے حامیوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا، مظاہرین نے پولیس پر سنگ باری کی اور پولیس نے اُنھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی اور بانس کے ڈنڈے چلائے۔

اِن جھڑپوں میں نصف درجن پولیس والوں سمیت 21افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ مظاہرین مقبول بٹ کی باقیات کو سری نگر لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اُدھر سرحدی ضلع کپواڑہ میں مقبول بٹ کی جائے پیدائش میں اُنھیں خراجِ عقیدت کے لیے ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ مبینہ طور پر تقریباً بیس سال پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں گزارنے کے بعد وہ وادیِ کشمیر لوٹ آئے ہیں۔جلسے کے دوران مقبول بٹ کے چھوٹے بھائی ظہور احمد بٹ بھی نمودار ہوئے، جو خود بھی عسکریت پسند کمانڈر رہ چکے ہیں۔اِس موقع پر مقبول بٹ کی تصنیف ‘شورِ فردا’ کی رسمِ رونمائی ہوئی۔

مقبول بٹ قوم پرست جموں و کشمیر قومی محاذِ آزادی کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ انھیں 11فروری 1984ء کو نئی دہلی کے مضافات میں واقع تِہاڑ جیل میں تختِ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔ پھانسی پر چڑھائے جانے کے بعد مقبول بٹ کے جسدِ خاکی کو تِہاڑ جیل کے احاطے ہی میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔

اُنھیں سری نگر کی ایک عدالت نے بھارتی کشمیر میں انٹیلی جنس عہدے دار امرچند کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سزا سنانے والے جج کو بھارتی کشمیر میں بیس برس قبل مسلمان نوجوانوں کی طرف سے شروع کی گئی مسلح جدوجہد کے ابتدائی دنوں میں سری نگر کے ایک بھرے بازار میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا