گیارہ فروری 2014کو مقبول بٹ کی شہادت کو تیس  سال اور تہار جیل میں دہلی میں اسیری کو اڑتیس  سال ہو جائیں گے۔ کشمیر میں قومی آزادی کی جدوجہد کے محترم ترین نام مقبول بٹ کو ان کی سیاسی زندگی کے دوران دشمن کا ایجینٹ ہونے کے الزام میں بھارت اور پاکستان  دونون نے جیل میں ڈالا اور تشدد کیا۔ خود مقبول بٹ کے بقول وہ اپنے وطن کشمیر پر قابض کسی بھی ملک کا  نہیں بلکہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کا ایجینٹ تھا۔ ایک بھارتی عدالت میں جہاں اس پر دشمن کے ایجینٹ ہونے مقدمہ چل رہا تھا مقبول بٹ نے کہا :

" مجھے خود پر لگایا گیا الزام تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہاں مگر ایک ترمیم کے ساتھ کہ میں دشمن کا ایجینٹ نہیں ہوں بلکہ میں ہی دشمن ہوں۔ مجھے اچھی طرح پہچان لیا جائے میں ہی کشمیر میں آپ کے غیرقانونی قبضے کا دشمن ہوں۔ "


گیارہ فروری ۱۹۸۴ کو  دہلی کی تہار جیل میں مقبول بٹ کی پھانسی کے بعد ہر سال  اس روز ریاست کی آزادی و خودمختاری کے حامی کشمیری ریاست کے اندر اور دنیا بھر میں " روشنی کے اس شہید اول " ، "  عظیم شہید " اور "قائد اعظم "  کی برسی پورے عقیدت و احترام سے مناتے ہیں ۔ شاعر شاعری لکھتے ہیں، نثر نگار مضامین تحریر کرتے ہیں اور سیاسی کارکنان اور لیڈر شہید مقبول بٹ کے قدموں کے نشانان  پر چلتے ہوئے وطن کی آزادی کے لیے تختہء دار پر جھول جانے کا عزم دہراتے ہیں۔

ذاتی طور پر  مجھے  گیارہ فروری 1984 سے پہلے  سیاست دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی اور جو تھی وہ جماعت اسلامی اور مسلم کانفرنس کے افکار و نظریات کے زیر اثر تھی۔ لیکن گیارہ فروری 1984 کے بعد سے کشمیر  کے مسئلے ، تاریخ و سیاست کے علم اور سمجھ کے لیے میں مسلسل اپنی بساط اور حالات کے مطابق کوشش کرتا چلا آیا ہوں اور ہر سال مقبول بٹ شہید کی برسی پر  ان کی زندگی اور جدوجہد کے حوالے سے تازی ترین معلومات اور  سمجھ کے  مطابق مضامین لکھ کر دستیاب وسائل اور ذرائع کے مطابق عوام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ذیل کامضمون  جو قارئین کو مقبول بٹ شہید کی زندگی اور جدوجہد سے بنایدی آگاہی فراہم کرتا ہے ببٹ صاحب   اور خود مختار کشمیر کی جدوجہد سے عقیدت اور عزم  کا سالانہ اظہار  بھی ہے ۔

 مقبول بٹ اٹھارہ فروری ۱۹۳۸کو کپوارہ ضلع کے قصبے ترہگام  گاوں کے ایک کسان غلام قادر بٹ کے ہاں پیدا ہوئے۔ اُن کی ماں جن کے بارے میں مجھے اتنا ہی معلوم ہوسکا ہے کہ ابھی مقبول بٹ اور ان کے چھوٹے بھائی غلام نبی بٹ چھوٹی عمر کے ہی تھے تو وہ وفات پا گئیں۔ بچوں کی پروروش اور گھر گرہستی چلانے کے لیے مقامی روایات کے مطابق غلام قادر نے  شاہ بیگم کے ساتھ دوسری شادی کی۔ دوسری بیوی سے ان تین بیٹے ، حبیب اللہ بٹ، منظور احمد بٹ اور ظہور احمد بٹ اور دو بہنیں سعیدہ اور محبوبہ پیدا ہوئیں ۔

بچپن میں مقبول بٹ کی زندگی بھی اس وقت کی ریاست کے ہزاروں کسان بچوں کی طرح جاگیردارانہ معاشرے کے دکھوں، غموں، امیدوں، خوابوں اور آسوں کی کوکھ میں پلی۔ مثال کے طور پر جب وہ نو سال کے تھے گاوں کے بیسوں بچوں کے ساتھ ایک بار اُنہیں گاوں کے کسانوں کو رعاتیں دلوانے کے لیے  اس علاقے کے جاگیردار کی موٹر کار کے آگے لیٹنا پڑا۔ تاہم بچپن  اور لڑکپن کے کچھ ایسے واقعات کی شہادتیں بھی ملتی ہیں جن سے مقبول بٹ کے اندر ناانصافی اور جبر کے خلاف جدوجہد کے جذبات کا پتہ چلتا ہے۔ مثال کے طور پر ابھی وہ سکول میں تھے کہ انہوں نے انعامی تقریبات میں امیر و غریب والدین کی نشستوں میں فرق کو مٹانے اور سکول کو پرائمری سے سیکنڈری درجہ دلانے کی  " تحریک " میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا۔

سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ حاصل کرنے یعنی میٹرک کے بعد مقبول بٹ سنٹ جوزف کالج بارہ مولا میں داخل ہوئے اور یہاں سے  سیاسیات اور تاریخ کے مضامین میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ کالج کی زندگی کے دوران مقبول بٹ نے شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے خلاف اور رائے شماری کے حق میں ہونے والی سرگرمیوں میں پوری سرگرمی سے حصہ لیا۔ اس سلسلہ میں  ہفت روزہ زندگی کے ساتھ انٹرویو میں جو کہ ۱۹۷۱ میں گنگا ہائی جیکنگ کے بعد لیا گیا تھا مقبول بٹ نے بتایا :

" میں ایک اچھا مقرر تھا ۔ ہڑتالیں بہت کیا کرتا تھا اور بہت سے دوسرے کشمیری شہریوں کی طرح ہمیں بھی محاذ رائے شماری میں خاصی دلچسپی تھی۔ ہماری ہڑتالوں کا ایک اثر یہ ہوا کہ کالج [ سنٹ جوزف جو کہ ایک مشنری کالح تھا ] حکومت نے سرکاری تحویل میں لے لیا"

مقبول بٹ کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اس کالج کے پرنسپل فادر جارج شنکس نے کہا یہ نوجوان اگر راستے کی سختیوں کو سہہ گیا تو ایک بڑا آدمی بنے گا ۔ مگر اس کے جیسے لوگ عام طور پر پر شدید مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ جس طرح کی آزادی کی خواب وہ دیکھتے ہیں اس کو حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس لیے وہ اکثر آزادی کی راہ پر قربان ہو جاتے ہیں ۔

آزادی کی تلاش میں قربانی کی راہ پر  چلتے ہوئے مقبول بٹ ۱۹۵۸ کو تقسیم کی لکیر پار کر کے کشمیر کےاس حصے میں آگئے جس کو سرکاری طور پر " آزاد کشمیر " کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے مذکورہ بالا انٹرویو میں مقبول بٹ نے کہا :

" دسمبر ۱۹۵۷کو شیر کشمیر  [ شیخ عبداللہ ] کی رہائی سے بہت سی سیاسی سرگرمیوں کو مہمیز ملی۔ اس سال مارچ/اپریل میں میرے بی اے کے امتحانات تھے جن کے لیے امتحانی مرکز سری نگر میں تھا۔ ہمارا آخری پرچہ دو اپریل کو تھا جبکہ ستائیس اپریل کو شیخ صاحب کودوبارہ گرفتار کیا گیا اور بہت سے آزادی پسندوں اور طلبا لیڈروں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع کر دی گئی۔ میری گرفتاری بھی یقینی تھی۔ اس لیے میں زیر زمین چلا گیا ۔ تین ماہ بعد میرے والد صاحب جا کر امتحانی رزلٹ لے کر آئے اور میں اگست ۱۹۵۸کو پاکستان آگیا۔ پہلے ہم لاہور آئے اور پھر وہاں سے ستمبر میں پشاور چلے گئے۔ "

 

پاکستان میں فوری مسئلہ ظاہر ہے کہ تعلیم جاری رکھنا اور معاش کا ذریعہ تلاش کرنا تھا ۔ اس حوالے سے خواجہ رفیق سفیر حریت میں مقبول بٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

" پاکستان میں گذارہ کرنا مُشکل تھا ۔ اس لیے میں نے ہفت روزہ انجام میں سب ایڈیٹر ہوگیا اور اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک صحافی کی حیثیت سے کیا۔ میں نے پشاور یونیورسٹی سے اُردو میں ایم اے کیا اور ۱۹۶۵میں کل وقتی سیاست میں کودنے تک روزنامہ انجام کے ساتھ کام کیا "

اس دوران چچا عبدالعزیز جو اس سفر میں اپنے بھتیجے کے ساتھ تھے نے مقبول بٹ کی شادی راجہ بیگم کے ساتھ طے کر دی ۔ راجہ بیگم سے مقبول بٹ کے دو بیٹے پیدا ہوئے ، جاوید مقبول بٹ ۱۹۶۲ میں اور شوکت مقبول بٹ ۱۹۶۴ میں ۔ ۱۹۶۶ میں مقبول بٹ نے ذاکرہ بیگم سے  شادی کی جو کہ سکول ٹیچر تھیں اور ان سے ایک بیٹی لبنی مقبول پیدا ہوئیں ۔

پاکستان میں مقبول بٹ کی پہلی اہم سیاسی سرگرمی ۱۹۶۱میں بنیادی جمہوریتوں میں پشاور کی نشست سے الیکش میں حصہ لینا تھا۔ اس کے بعد  صدارتی انتخابات میں انہوں نے کے ایچ خورشید کے لیے مُہم میں حصہ لیا اور کشمیر سٹیٹ کونسل میں جی ایم لون کے لیے مہم چلائی ۔ مگر  ۱۹۶۵ میں جب پاکستان نے اپریشن جبرالٹر کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کرنے کی غرض سے مجاہدین کو " پار " بھیجنا شروع کیا تو مقبول بٹ  نے الیکشن کی سیاست کو خیر آباد کہہ کر فوجیوں کو اپنی خدمات پیش کیں۔ مگر اُن کو سخت دھچکا لگا جب اُن کی پیش کش قبول نہ کی گئی ۔

میرے خیال میں یہ وہ مقام تھا جب مقبول بٹ کے اندر پاکستانی احکام کے کشمیر کے ساتھ رشتے اور کشمیر میں دلچسپی کا جو خوش کن تصور تھا ، جو وادی سے آنے والے کشمیریوں کو اکثر ہوتا ہے، وہ تصور چکنا چور ہو گیا۔ یہاں اُن پر یہ راز کھلا کہ پاکستانی حکمرانوں کی دلچسپی کشمیر سے ہے کشمیریوں سے نہیں ۔

اس مرحلے پر پاکستان کے اندر  " خود مختار کشمیر کمیٹی " کے نام سے ایک گروپ موجود تھا جو امان اللہ خان نے مئی ۱۹۶۳میں  بھارت و پاکستان کے درمیان کشمیر کی تقسیم پر اتفاق ہوجانے کی افواہ کے ردعمل میں قائم کیا تھا – یہ گروپ پاکستان کے اندر مقیم کشمیری تاجروں، طلباء ، صحافیوں اور اساتذہ وغیرہ پر مشتمل تھا ۔ اس وقت اس کمیٹی کے سربراہ کشمیر سٹیٹ کونسل کے رکن جی ایم لون تھے جن کے لیے چند سال قبل مقبول بٹ نے مہم چلائی تھی۔

اسی دور میں آزاد کشمیر کے اندر منگلاڈیم کی تعمیر کے خلاف ایک متحدہ محاز بھی  قائم ہوا تھا جس میں خود مختار کشمیر کے حامی پیش پیش تھے ۔ اپریل ۱۹۶۵میں آزاد کشمیر اور پاکستان سے خود مختار کشمیر کے حمایتی کچھ کشمیری  پاکستانی شہر سیالکوٹ سے ہوتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے سچیت گڑھ میں اکٹھے ہوئے اور محاذ رائے شماری قائم کی۔  مقبول بٹ اس کے سیکرٹری نشرواشاعت جبکہ امان اللہ خان سیکرٹری اور عبدالخالق انصاری صدر منتخب ہوئے ۔ محاز رائے شماری کی کوکھ ہی سے بعد ازاں نیشنل لبریشن فرنٹ اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پیدا ہوئے۔ 

یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں قومی آزادی یعنی نیشنل لبریشن تحریکوں کو  خاصی عوامی  حمایت حاصل تھی اور مسلح جدوجہد کے زریعے آزادی کی تحریک چلانا غلام و محکوم قوموں کا حق سمجھا جاتا تھا۔ اس ہی عالمی فضا سے متاثر ہو کر پہلے مقبول بٹ اور امان اللہ خان نے محاذ رائے شماری کے اندر مسلح ونگ کی تحریک پیش کی مگر ناکامی کے بعد میر عبدالقیوم اور ریٹائرڈ میجر امان اللہ کے ساتھ مل کر ۱۳ اگست ۱۹۶۵کو جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ قائم کر لیا۔ اس کا مقصد  بقول امان اللہ خان جدوجہد کی تمام اشکال بشمول مسلح جدوجہد کے ذریعے ریاست جموں کشمیر کے عوام کو ریاست کے بلا شرکت غیرے مالک و مختار بنانا تھا ۔

اگلے دس ماہ تک این ایل ایف کے ان چار بانیوں نے مزید لوگوں کو قائل کر کے این ایل ایف میں شامل کرلیا جن میں  محاذ کے نائب صدر جی ایم لون بھی شامل تھے۔ ۱۰ جون ۱۹۶۶ کو این ایل ایف کا پہلا گروپ تقسیم کی لکیر پار کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر گیا۔ اس گروپ میں مقبول بٹ، اورنگ زیب امیر احمد ، کالا خان وادی کشمیر کی طرف نکل گئے  کیونکہ ان کا کام وادی کے اندر کشمیریوں کو اس تحریک میں شامل کرنا تھا جب کہ حبیب اللہ اور میجر امان اللہ تقسیم کی لکیر کے آس پاس ہی رہے جن کا کام تربیت اور ہتھیار وغیرہ فراہم کرنا تھا ۔  میسر معلومات کے مطابق مقبول بٹ اور ان کےساتھیوں نے تین ماہ تک وادی کشمیر اور نواحی علاقوں میں کام کیا اور کچھ گوریلا سیل قائم کیے۔ تاہم اس کے بعد بھارتی خفیہ اداروں  کو ان کی سرگرمیوں کا علم ہو گیا اور ایک دن بھارتی قابض اہلکاروں اور این ایل ایف کے کارکنان کے درمیان تصادم میں اورنگ زیب جن کا تعلق گلگت سے تھا شہید ہو گئے جبکہ انٹیلی جنس کا ایک افسر بھی مارا گیا جبکہ کالا خان کو کچھ زخم آئے۔ بعد ازاں ایک انٹرویو میں مقبول بٹ نے بتایا کہ یہ تصادم باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا :

" ہم ابھی انتظامی مرحلے میں تھےاور احکام کے ساتھ تصادم کے لیے قطعی طور پر تیار نہ تھے۔ تصادم کا خطرہ صرف اس وقت مول لینا چاہیے جب آپ دشمن کو اس کے لیے دعوت دینے کے قابل ہو تے ہیں۔ ہمیں گرفتار کر کے ہم پر مقدمہ چلایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی حکومت فوجی عدالت میں ہم پر مقدمہ چلا کر ہمیں ختم کر دینا چاہتی تھی مگر مقدمہ سول عدالت میں چلا ۔ دو سال بعد اگست ۱۹۶۸میں فیصلہ یہ سنایا گیا کہ دو[ مقبول بٹ اور امیر احمد] کو سزائے موت جبکہ ایک [ کالا خان ] کو عمر قید کی سزا دی جائے۔ مقبوضہ کشمیر سے ہمارے ساتھیوں کو تین ماہ سے تین سال تک کی سزائیں سنائی گئیں ۔ کل تقریبا تین سو لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں طلباء، اساتذہ، ٹھیکیدار، دوکاندار اور حکومتی ملازمین شامل تھے اور ان میں مختلف جماعتوں بشمول محاذ رائے شماری، کانگرس اور نیشنل کانفرنس کے لوگ بھی شامل تھے۔

مگر مقبول بٹ اور ان کے ساتھی قیدیوں کے لیے  عدالتی احکامات اور جیل کی دیواریں وہ معنی نہیں رکھتی تھیں جو عام قیدیوں کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ تو جانباز سپاہی تھے جو وطن کو آزاد کرانے نکلے تھے ۔ اس لیے جیل  جاتے ہی جیل سے فرار ان کی اولین ترجیحی قرار پائی اور ڈیڑھ ماہ کے اندر این ایل ایف کے یہ گوریلے جیل توڑ کر بھاگ نکلے۔ اس کو مکمل تفصیلات مقبول بٹ نے چند سال بعد پاکستانی عدالت میں پیش کی تھیں جہاں ان پر بھارتی طیارے گنگا کے اغواء کا مقدمہ چل رہا تھا ۔ اور یہ تفصیلات بعد ازاں ماہنامہ حکایت میں سری نگر جیل سے فرار کی کہانی کے نام سے شائع ہوئی تھیں۔ حال ہی میں آزادکشمیر کے ممتاز محقق اور مرتب سعید اسد نے بھی اسی نام سے حاشیوں کے ساتھ چھاپی ہے۔ تاہم یہاں مقبول بٹ کے انٹرویوز سے صرف ایک مختصر سا خلاصہ ہی پیش کیا گیا ہے۔

" بائیس اکتوبر ۱۹۶۸ کو ہم نے جیل سے فرار کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور کوئی ڈیڑھ ماہ بعد ہم اس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے آٹھ دسمبر ۱۹۶۸ کو صبح دو بج کر دس منٹ پر جیل کی دیوار توڑ کر باہر نکل آئے۔ ہم میں سے دو سزائے موت کے قیدی تھے جبکہ تیسرا آزاد کشمیر کا ایک قیدی تھا ۔ ہمیں آزاد کشمیر کی پہلی چیک پوسٹ تک پہنچنے میں سولہ دن لگے۔ پچیس دسمبر کو ہم مظفر آباد پہنچے جہاں مظفر آباد کے تفتیشی مرکز میں مارچ  ۱۹۶۹تک ہم زیر تفتیش رہے۔ "

آزاد کشیر میں گرفتاری اور تفتیش کے سوال پر مقبول بٹ نے جو کہا اس سے کشمیریوں کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کے رویوں کو سمجھنے میں مزید مدد ملتی ہے:

 

 

 

" اس بارے میں، میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔ یہ ایوب خان کی حکومت تھی اور ایوب خان کے بارے میں،  میں کیا کہوں ۔ اس شخص کو نہ تو پاکستان کے لوگوں کی فلاح سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ کشمیریوں کی۔ اس کی حکومت نے ہمارے ساتھ بہت ظالمانہ سلوک کیا۔ تفتیشی مرکز میں مجھ پر انتہائی شدید تشدد کیا گیا اور اس تشدد کا درد یہ سوچ کر مزید بڑھ جاتا تھا کہ یہ ہمارے اپنے کر رہے تھے ۔ "

 

آٹھ مارچ ۱۹۶۹ کو اُنہیں این ایس ایف اور محاذ کے کارکنان کی طرف سے اسلام آباد میں مظاہروں کے بعد رہا کیا گیا۔ نومبر ۱۹۶۹ کو محاذ کا سالانہ کنونشن مظفر آباد میں منعقد ہوا جس میں مقبول بٹ جماعت کے صدر منتخب ہوئے۔

این ایل ایف کے ظاہر یا آشکار ہوجانے کے نقصانات کو تسلیم کرتے ہوئے مقبول بٹ اس کے مثبت اثرات سے بھی آگاہ تھے۔ ان کے خیال میں این ایل ایف کے لیڈروں کی گرفتاری اور جیل سے فرار اور آزاد کشمیر میں ان کی گرفتاری وغیرہ جیسے واقعات نے قومی آزادی کی جدوجہد اور نظریے کو مہمیز بخشی تھی  اور مزید نوجوان اس جدوجہد سے وابستہ ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ان کے خیال میں تحریک تب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی تھی :

" اب ہم نہ صرف طاقت کی زبان میں بات کرنے کے قابل ہو گئے ہیں اور صرف یہی وہ زبان ہے جو بھارت کو سمجھ میں آتی ہے بلکہ اب ہم عالمی برادری جو ہمارے وجود سے غافل ہے  سے بھی اپنا وجود منوا سکتے ہیں۔ ہمارا وجود تسلیم کر لیا گیا ہے اور اب ہم صرف اس وقت چین سے بیٹھیں گے جب پوری کشمیری قوم کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ انشااللہ ۔"

محاذ کا صدر منتخب ہو جانے کے بعد مقبول بٹ نے اگلے چند سال گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کے سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد میں گذارے۔ تقسیم کشمیر کی لکیر کے اس طرف جدوجہد کا مرکز ۱۹۷۰ کا آئین تھا جس نے آزاد کشمیر کو  وزارت امور کشمیر اور چیف سیکرٹری کے ذریعے پاکستان کی کالونی میں بدل دیا تھا ۔ اس ایکٹ نے آزاد کشمیر کو  بقایا ریاست سے کاٹ کر ساڑھے چار ہزار مربع میل کے علاقے تک محدود کردیا ۔ گلگت بلتستان میں تو صورت حال اس سے بھی بد تر تھی ۔ یہ علاقے پاکستان نے ایک سیاسی ایجینٹ کے ذریعے براہ راست کنٹرول میں رکھے  ہوئے تھے ۔ محاذ رائے شماری نے ہفتہ گلگت بلتستان منایا اور اعلان کیا کہ جماعت کا آئندہ کنونشن وہاں ہوگا۔  تاہم مقبول بٹ، عبدالخالق انصاری ، میر قیوم ، جی ایم میر اور امان اللہ خان کو ان علاقوں سے پاکستانی احکام نے گرفتار کر کے ریاست کی حدود سے باہر نکال دیا۔

اس کے بعد جس واقعے نے این ایل ایف اور مقبول بٹ کو مزید شہرت اور عزت بخشی اوہ گنگا طیارے کا اغواء تھا۔ گو آج کل مسلح کاروائیوں کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ایک دم دہشت گردی قرار دے دیتے ہیں اس وقت اسطرح کے واقعات کو ان کی وجوہات کا پتہ چلانے کے لیے دیکھا جاتا تھا کہ آخر اس قوم کا مسئلہ کیا ہے جس کے جوانوں نے جان پر کھیل کر اتنا انتہائی اقدام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیس جنوری ۱۹۷۱ کو دن کے ایک بج کر پانچ منٹ پر  جب ہاشم اور اشرف قریشی  گنگا طیارے کو جو کہ  سری نگر سے جموں کے لیے اُڑا تھا لاہور لے آئے اور کہا کہ یہ کام انہوں نے این ایل ایف کے قائد مقبول بٹ کی ہدایات اور سربراہی میں کشمیر ی جیلوں میں قید این ایل ایف کے کارکنان کی رہائی کے لیے کیا ہے تو اس سے آزادی پسند کشمیریوں کی نظروں میں وہ دوسرے کشمیری سیاستدانوں کے مقابلے میں ممتاز اور محترم حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ اس کی تفصیلات خواجہ رفیق کی سفیر حریت میں موجود ہیں ۔  اغواء کے بعد پہلے تو ہاشم، اشرف، امان اللہ خان و مقبول بٹ وغیرہ کو ہیرو کا درجہ دیا گیا مگر پھر جلد ہی ان کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی گئی اور دسمبر ۱۹۷۱ میں ان پر خصوصی عدالت میں دشمن کے ایجینٹ کے جرم میں مقدمہ چلا دیا گیا۔ اس کیس میں استغاثہ کی طرف سے ۱۹۸۴ اور صفائی کی طرف سے ۱۹۴۲ گواہ پیش ہوئے ۔ اس کا فیصلہ ۱۹۷۳ میں ہوا جس میں ہاشم قریشی کے سواء باقی سب کو باعزت بری کردیا گیا۔ ہاشم کی سزا کے خلاف اپیل دائر کی گئی جس کی سنوائی سات سال بعد ہوئی اور اس کے چند سال بعد ان کو بھی رہا کر دیا گیا۔ اس مقدمے کے دوروان مقبول بٹ نے جو عدالتی بیان جمع کروایا وہ شاید ان کی سیاست اور نظریات کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہے اور کشمیر کی قومی آزادی ، این ایل ایف اور مقبول بٹ کی جدوجہد کو سمجھنے کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار پاتا ہے۔ اس میں سے صرف ایک مختصر سا اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے :

 

"  میں بغیر کسی ہچکچاہٹ سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے نہ تو کوئی سازش تیار کی ہے اور نہ سازشیوں کے کسی ٹولے کا کبھی حصہ رہا ہوں۔ میرا کردار ہمیشہ صاف و شفاف رہا ہے۔ تاہم میں ایک کام کیا ہے اور وہ ہے جہالت، دولت پسندی، استحصال، جبر ، غلامی اور منافقت کے خلاف بغاوت۔ اگر پاکستان کے حکمران طبقات جو سامراج کی پیداوار ہیں اور اس ملک میں جن کی نمائندہ سول نوکر شاہی اور فوجی آمریت ہیں اگر اس کو سازش گردانتے ہیں تو پھر مجھے یہ الزام قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں "

 

یوں تو گنگا مقدمے کا ہر ایک پہلو  تحقیقی دلچسپی کے کئی ایک پہلو لیے ہوئے ہے اور اس کا ایک ایک لفظ شائع ہو کر کشمیر، بھارت اور پاکستان کے اندر سماجی شعور، تبدیلی اور ترقی کے طالبعلموں کے سامنے آنا چاہیے، مگر ایک افسوسناک دلچسپی کا پہلو یہ تھا کہ اس میں ملزمان کو اپیل کا حق حاصل نہیں تھا۔بقول میر قیوم اس بارے میں جب عبدالخالق انصاری جو محاذ کے صدر اور پیشے کے اعتبار سے ایک منجھے ہوئے وکیل تھے نے جب پاکستان کے وزیر قانون محمود علی قصوری سے استفسار کیا تو وزیر موصوف نے فرمایا کہ بھلا دنیا میں کہیں کبھی سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف اپیل کا حق دیا جاتا ہے؟ جواب میں انصاری صاحب نے پوچھا محترم کیا  دنیا میں  کہیں سپریم کورٹ کو ٹرائل کورٹ کے طور پربھی استعمال کیا جاتا ہے؟ بقول میر قیوم گنگا ملزمان کو اپیل کا حق صرف اس وقت دیا گیا جب برطانوی کشمیریوں نے  برطانیہ کے دورے پر جانے والے پاکستانی وزراء پر واضع کیا کہ جو غیر قانونی ہتکھنڈے کشمیری حریت پسندوں کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں اگر بند نہ کیے گئے تو عالمی سطح پر ان کو بے نقاب کیا جائے گا۔

تاہم جب اپیل کا یہ حق استعمال کرتے ہوئے ہاشم قریشی کی سزا کے خلاف اپیل دائر کی گئی تو اس کی سنوائی کی باری آنے میں سات سال کا عرصہ بیت گیا۔

گنگا مقدمے کے بعد امان اللہ خان اور عبدالخالق انصاری برطانیہ چلے آئے جہاں انہوں نے محاذ کا نام بدل کر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ رکھا اور میرپور کے عظیم انسان دوست  سرگرم سماجی رہنما  صوفی زمان  کے بھائی عبدالجبار بٹ اس کے صدر منتخب ہوئے۔ جبکہ مقبول بٹ دوستوں کی طرف سے روکنے کے باوجود واپس بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ اب کی بار ان کے ساتھ عبدالحمید بٹ اور ریاض ڈار تھے ۔ چند دنوں کے اندر اندر ہی ان کو گرفتار کر لیا گیا اور سزائے موت بحال کر دی گئی۔ ریاض ڈار اور حمید بٹ کے ساتھ کیا ہوا؟ اس پر مزید معلومات درکار ہیں۔ تاہم مقبول بٹ کو تہار جیل منتقل کر دیا گیا ۔ مقبول بٹ کی رہائی کے لیے جے کے ایل ایف کی طرف سے مختلف کوششیں کی گئیں مگر  کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی ۔ مقبول بٹ کے خطوط اور ان کے ایک وکیل مظفر بیگ کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ مقبول بٹ کا مقدمہ دوبارہ سنے جانے کے لیے خاصی معقول بنیادیں موجود تھیں اور  فروری ۱۹۸۴ کے پہلے ہفتے جب برطانیہ میں کشمیر لبریشن آرمی نامی تنظیم نے ایک بھارتی سفارتکار کو اغواء اور قتل کیا تو مقبول بٹ اور ان کے وکیل مقدمے کی دوبارہ سنوائی کے لیے بڑے پُر اُمید تھے۔ مگر برمنگھم برطانیہ میں اس اغواء اور قتل کے بعد دہلی میں بھارتی وزیر اعظم اندرہ گاندھی نے تمام قانونی تقاضوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے انتقامی طور پر مقبول بٹ کو پھانسی  چڑھا دیا ۔ ستم ظریفی حالات دیکھیے کہ ریاستی وزیر اعلی کی حیثیت سے مقبول بٹ کی موت کے پروانے یعنی بلیک وارنٹ پر دستخط کشمیر میں عوامی سیاست کے عظیم قائد شیخ عبداللہ کے اس بیٹے  فاروق عبداللہ نے کیے جس نے ۱۹۷۴ میں کئی روز مقبول بٹ کے ساتھ آزاد کشمیر میں محاذ رائے شماری کے ممبر کی حیثیت سے  گذارے تھے  اور واپسی پر مقبول بٹ بٹ کی شخصیت پر  تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقبول بٹ ایک بڑا ہی رومانوی شخص تھا بالکل چی گویرا کی طرح۔ وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا بالکل شیخ عبداللہ کی طرح جس کی سیاست سے مقبول بٹ سنٹ جوزف کالج میں متاثر ہو کر اس کارزار میں کودا تھا ۔

۱۱ فروری ۱۹۸۴ کی صبح مقبول بٹ کو پھانسی دے دی گئی۔ کہتے ہیں کہ پہلی بار گرفتاری کے بعد سرینگر کی عدالت میں جب نیل کنٹھ گنجو نے پھانسی کی سزا سنائی تو مقبول بٹ نے کہا تھا :

جج صاحب ابھی وہ رسی نہیں بنی جو مقبول بٹ کو پھانسی دے سکے"

اس پر بھارتی نقطہ نظر سے مقبول بٹ کو دیکھنے والے کچھ لکھاری  دعویٰ کرتے  ہیں کہ گیارہ فروری 1984 کو آخر وہ رسی بن ہی گئی۔  وہ سچ کہتے ہیں – اس رسی نے مقبول بٹ کو پھانسی دے دی۔ محمد مقبول بٹ ولد غلام قادر بٹ کے جسم کو مردہ کر دیا۔ مگر اس کی روح تو جیسے  ایک دم سے لاکھوں کشمیریوں کے جسموں میں حلول کر گئی۔  بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تو اس وقت کوئی زیادہ بڑا عوامی ردعمل نہ ہوا۔ مگر آزاد کشمیر، پاکستان کے شہر جہاں کشمیری تھے اور برطانیہ و دنیا بھر میں کشمیری  اس روز مقبول بٹ بن گئے۔ میں نے اس دن سے خود مختاری کی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی اور آج تک شاید ایک دن بھی نہیں گذرا ہو گا اس بارے میں سوچ وچار یا کچھ پڑھے بغیر ۔ چند ہی سالوں بعد وادی میں ایک بہت بڑی تحریک اُبھری جس میں اب تک ایک لاکھ کے قریب کشمیری شہید ہوچکے ہیں مگر ان  کا شہید اعظم مقبول بٹ ہی قرار پایا۔  آج اگر کوئی ایک نام جو ریاست جموں کشمیر میں مزاحمت و آزادی کی تحریک کے مختلف لیڈروں کے لیے مشترکہ طور پر محترم ہے   اور ریاست کے مختلف خطوں اور  دنیا بھر میں تارکین وطن کشمیریوں  کو ایک لڑی میں پروہتا ہے وہ مقبول بٹ کا نام  ہی ہے۔

مقبول بٹ کی لاش ان کے ورثاء یا وکلاء کو دینے کی بجائے تہار جیل کے احاطے ہی میں دفن کر دی گئی۔

ان کی بہن کے بقول :

" ہم دہلی جانے کے لیے سری نگر ائیرپورٹ پر گئے مگر پولیس نے ہمیں جانے نہ دیا۔ " اُن کی بھتیجی اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں : 

" اُنہوں نے تیار جیل سے ان [ مقبول بٹ ] کی کوئی چیز بھی ہمیں نہیں دی۔ میری خواہش ہے کہ وہ جیل میں ان کی قبر کی تھوڑی سی خاک ہی ہمیں دے دیتے"  ۔

اُن کی والدہ  آج بھی بیٹے کے جسد خاکی کی منتظر ہیں۔ 

محمد یاسین بٹ جو تہار جیل میں قید کاٹ رہے تھے نے ۱۹۹۵ میں  کشمیر ٹائمز برطانیہ  کو اپنے ایک خط میں لکھا کہ جیل میں انہوں نے کئی ایک قیدیوں سے مقبول بٹ کی شخصیت کے بارے میں پوچھا ۔ سب ہی ان کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جیل کے اندر انہوں نے چھوٹے ملازمین اور قیدیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی اور کئی قیدیوں کو پڑھنا لکھنا بھی سکھایا۔ یاسین نے مزید لکھا کہ تہار جیل میں مقبول صاحب کی قبر پر ہر سال  قیدی موم بتیاں  اور چراغ جلا کر اپنے اپنے عقائد کے مطابق ان کے لیے دعا اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

بھارت و پاکستانی سرکاروں کے درمیان اعتماد سازی کے کچھ احسن  اقدامات کے باوجود بھارت سرکار نے مقبول بٹ کا جسد خاکی مسلسل مطالبات اور اٹھائیس سال بیت جانے کے باوجود ان کے ورثاء کے حوالے نہیں کیا۔ ۔ ان کے بیٹے اور بیٹی پاکستان اور آزاد کشمیر میں مقیم ہیں جہاں ان کے چھوٹے بیٹے شوکت مقبول نیشنل لبریشن کانفرنس  کے سرپرست اور آل پارٹیز نیشنل آلائنس اور جموں کشمیر انقلابی تحریک کے  معتبر رہنماوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

افتخار گیلانی جو کہ ۲۰۰۳ میں جاسوسی کے الزام میں تیار میں قید کیے گئے تھے اور بعد ازاں ہندوستانی سول سوسائٹی کے مسلسل احتجاج کے باعث رہا کر دہے گئے تھے نے لکھا کہ تہار جیل میں جہاں مقبول بٹ کی قبر تھی اس پر شاید کچھ تعمیر کر دیا گیا ہے؟ اس کی تصدیق تاحال کسی اور ذریعے سے نہیں ہو سکی ۔ تاہم کشمیریوں کی طرف سے مقبول بٹ کے جسد خاکی  کے مطالبات میں شدت پیدا ہو رہی ہے ۔  اب ان کی والدہ اور ان کے بھائی ظہور بٹ اس مہم کی قیادت کر رہے ہیں ۔

  لیکن ۔۔۔  دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کی سرکار اور مرکزی سیاسی دھارے  پر اس کا کوئی اثر نہیں ۔ ایک آزادی پسند کو قتل کے اٹھائیس سال بعد بھی جیل میں رکھنے میں  بھارت سرکار کو کوئی نا انصافی نظر نہیں آتی۔مقبول بٹ کے لیے ایک قبر سری نگر کے مزار شہدا میں منتظر ہے اور دوسری ان کے آبائی گھر کے آنگن میں ان  کے دوسرے بھائیوں  کے پہلو میں ۔

  اسی صورت حال کو کوٹلی آزاد کشمیر کے نامور شاعر محمد یامین نے یوں امر کردیا ہے

کہاں تو سویا خبر نہیں

خبر نہیں قبر نہیں

مگر یہ بندے نثار تیرے

کڑور دل ہیں مزار تیرے ۔

ختم شد